سامراجی جنگ اور دہشت گردی نامنظور

پشاور میں آرمی پبلک سکول میں طالبان کے حملے میں150سے زائد لوگ ہلاک ہوئے،جن میں سے 133 بچے تھے۔دہشت گردی کے اس واقع نے پاکستانی عوام کو سوگوارکردیا اور دنیا میں بھر کے عوام نے اس پرغم کا اظہار کیا۔میڈیا طالبان کی بربریت کو سامنے لے کر آیااوراسے قوم کے بچوں پر حملہ قرار دیاجس کا انتقام ضروری ہے۔اس طرح اس ریاست سوال کرنے کے برعکس ریاست کو ہی حل کے طور پر پیش جارہا ہے ۔حکمران طبقہ کے مختلف حصوں میں ٹکراو جاری تھا جس کو پشاور سانحہ متحدہ کرگیا۔تحریک انصاف نے تحریک کے خاتمے اور ملکر لائحہ عمل تشکیل دینے کا اعلان کردیا ہے۔جس کا نتیجہ نیشنل ایکشن پلان اور ایمرجنسی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ریاست واقع اور اتحاد کو آپریشن کی شدت میں تیزی لانے کے لیے استعمال کررہی ہے۔

معصوم بچوں اور ان کے دکھی ماں باپ کومیڈیا نے جس طرح دکھایا،اس کا مقصد آپریشن کو واحد حل کے طور پر پیش کرنا تھاجس میں حکمران کامیاب رہے ہیں۔دہشت گردی کے اس واقع کو اس طرح پیش کیا جارہا ہے جیسے اس کا سامراج اور ریاست کی پالیسیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔آپریشن میں تیزی لائی جارہی ہے،اس کو واحد حل اور عوام میں نسل پرستی اور جنگی جنون پیدا کیا جارہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ا ہونے والے مظاہروں کی وجہ سے ریاست کے لیے یہ آسان ہوگیا ہے کہ اسے عوامی جنگ بناکر پیش کرے،،میڈیا ایسی فضاء بنارہا جس میں عوام جنگ کا مطالبہ کرتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔ ریاست کوعوام کا دفاع ،حامی بناکر پیش کیا جارہا ہے،جو طالبان کی بربریت سے عوام کو بچا سکتی ہے۔لیکن یہ اس ریاست کی سفاکیت سامنے نہیں لاتے جہاں سینکڑوں ریاستی آپریشنوں سے ہلاک اوربچے ادویات اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے مارے جاتے ہیں۔

ریاست کا مواقف ہے کہ اب اچھے اور برے طالبان میں تمیزختم ہوگی ہے، ہر دفعہ جب آپریشن شروع کیا جاتا ہے تو یہی کہا جاتا ہے،آپریشن ضرب عضب کے آغاز میں بھی یہی مواقف اپنایا گیا۔لیکن بعدازں یہ واضح ہوگیا کہ ’’اچھے اور برے طالبان ‘‘میں فرق کیا جاتا ہے۔موجود حکومت کے اہم نمائندے سرتاج عزیز نے نومبر میں کہا تھا کہ ہمیں طالبان میں اچھے اور برے کا فرق کرنا ہوگا۔ریاست آج بھی بلوچستان ،سندھ ، پختونخوا اور پنجاب میں انڈیااورشیعہ مخالف گرپوں کی پشت پناہی کررہی ہے۔ یوں دہشت گردوں کی نئی کھیپ کوریاست جنم دے رہی ہے ۔ اس سے واضح ہے کہ حکمران طبقہ جب چاہے مذاکرات کرائے اور جب چاہیے جنگ یہ ہروقت یہی چاہتا ہے کہ عوام اس کے ساتھ کھڑے ہوں اور اس کو اپنی جنگ سمجھیں،جو حقیقت میں سامراج کے مفاد کی جنگ ہے۔

اس جنگ کے نتیجے میں 50000سے زائد لوگ مارے جاچکے ہیں اور پچاس لاکھ کے قریب بے گھر ہیں ۔لیکن یہ جنگ ختم نہیں ہورہی،یہ آپریشن طالبان میں خاتمے کی بجائے ان کی دہشت گردی کی شدت میں اضافہکا سبب بن رہا ہے۔ہر آپریشن کوفیصلہ کن اور حتمی بناکر پیش کیا جاتا ہے،جس سے امن اور ترقی ہوگی،لیکن یہ پہلے سے زیادہ بربادی اور تباہی لے کر آتا ہے ۔ہر آپریشن میں عام لوگ ہی مارے جاتے ہیں ۔ 

حکمران طبقہ اور ریاست اس جنگ کو ہماری جنگ قرار دیا رہا ہے لیکن حقیقت میں یہ سامراج کے مفادات اور قبضے کی جنگ ہے،جس میں ناکامی کی وجہ سے یہ اس کو پھیلا رہا ہے ۔آپریشن کے دائرے کار کو پورے ملک پھیلایا اور اس میں تیزی لائی جارہی ہے ۔اس کے ساتھ افغان مہاجرین کے خلاف تعصب میں اضافہ اور ان کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا جارہاہے،جبکہ پنجاب اور دیگر علاقوں میں سرچ آپریشن کے نام پر عام پختونوں کو ذلیل وخوار کیا جارہا ہے۔یہ نسل پرستی کی بدترین شکل ہے اور اس کا مقصد محنت کش طبقہ کو تقسیم کرنا ہے۔

ہم طالبان کی دہشت گردی کی شدید مخالفت اوربچوں کے والدین کے ساتھ اظہایکجہتی کرتے ہیں۔ لیکن ہم نہیں سمجھتے کہ آپریشن کا جاری رہنا اس بربریت کا کوئی حل ہے،بلکہ یہ عوام کے لیے مزید تباہی اور بربادی لے کرآئے گا۔اس جنگ کوفی الفور بندکیاجائے یہی مزید بچوں کو نشانہ بنانے سے روکنے کا ایک طریقہ ہے آپریشن نے دہشت گردی کو ختم کرنے کی بجائے اس کو مزید پھلایاہے۔

حکمران طبقہ کے شدید پرپگنڈے میں ہر ایک آپریشن کا حامی بن گیا ہے۔یہاں سوشلسٹوں کے لیے ضروری ہے کہ وہسامراجی جنگ کی حقیقت اشکار کرئیں کہ یہ جنگ جہاں

عوام کے لیے مزید تباہی اور بربادی لے کرآئے،وہاں اس کا مقصدریاست کے تسلط کو مضبوط بنانا ہے ۔یوں بربریت کا ایک لامتناہی جاری رہے گا۔لحاظ ہمیں جنگ ،نسل پرستی کی مخالفت اور دہشت گردی ایکٹ ودملٹری کورٹس جو انسانی حقوق کے خلاف ہیں اوران کیخلاف سیاسی جدوجہد منظم کرنے کی ضرورت ہے ۔ طالبان مخالف جدوجہد جنگ اور سرمایہ داری کی مخالفت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔