سات سالہ بچی زینب کا ریپ اور قتل کے خلاف ابھرتی ہوئی خواتین کی تحریک

 

قصور میں سات سالہ بچی کے اغواء ،زیادتی اور قتل کے خلاف پورے ملک میں احتجاج ہوا اور اس کے خلاف دو دن تک قصور بند رہا اور بڑے احتجاجی مظاہرے جن پر قابو پانے کے نام پر پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں تین لوگ ہلاک ہوئے جب کافی لوگ زخمی ہوئے۔قصورمیں مظاہرین اس واقع کے خلاف شدید غصے میں تھے اور ان مظاہرین میں ہر مرد،خواتین اور بچے شامل رہے ان کا کہنا تھا کہ قصور میں بچوں کا باہر نکلنا ناممکن ہوچکا ہے اور زینب کا واقعہ بچوں کے اغواء اور قتل کا ایک تسلسل ہے۔اس سب کو بند ہونا چاہیے لیکن حکومت اور انتظامیہ کچھ نہیں کررہی ہے بلکہ یہ متاثرین پر ہی دباؤ ڈالتے ہیں۔قصور کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس ظلم کے خلاف احتجاج ہو اور ان میں بڑے پیمانے پر لوگ شریک ہوئے۔خاصکر بڑے شہروں میں خواتین کی بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی۔

 

اس واقع کے بعد دیگر واقعات نھی رپورٹ ہونے شروع ہوئے تو پتہ چلا کہ یہ واقعات کتنے تسلسل سے ہورہے ہیں لیکن حکومت کی اس طرف کوئی توجہ ہی نہیں ہے۔یہ واقع جہاں بچوں کے ساتھ زیادتی اور بدسلوکی کو منظر عام پر لایا ہوں ۔عورت کی عمومی سماجی صورتحال پر بھی بحث کے امکانات کو جنم دیا کیونکہ پاکستانی سماج میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس کے ساتھ غلاموں کا سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں گھر ،محلے،سکول اور دفاتر میں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے اور جب اس پر بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ عورت کا اصل مقام گھر میں ہے اور اسے اس میں ہی مقید رہنا چاہیے اگر وہ باہر نکلے کی تو ایسا تو ہوگا یا اگر وہ اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی کوشش کرئے تو یہ نہیں کرنے دیا جاتا۔عورت کو ہراساں کرنا اور حٹی کہ اس کا ریپ کوئی بڑا واقعہ نہیں ہے اور زیادہ تر ان کو دبایا جاتا ہے البتہ اجتماعی ریپ اور بعدازں قتل کچھ کوریج حاصل کرتا ہے اور اس کی مذمت بھی ہو جاتی ہے ۔لیکن زینب والے واقع نے لوگوں میں موجود لاوے کو ابالا دیا ہے اور اب اس حادثے کے خلاف ہر طرف بات ہورہی ہے ۔لیکن میڈیا اور لبرلز اسے سطحی انداز میں پیش کررہے ہیں ۔اس وقت اصل بات خواتین کے حقوق کے حوالے سے بحث اور ایک تحریک کے تمام لوازمات موجود ہیں اور اس میں خاص طور پر ان خواتین کو شامل کرنے کی ضرورت ہے جو کام کرتی ہیں کیونکہ ان کو روزانہ کی بنیاد پر جنسی ہراساں ہونا پڑتا ہے ۔لیکن اس ساتھ گھروں میں رہنے والی خواتین اور سٹوڈنٹس کو شامل کرکے ہی ایک اجتماعی مکالمے اور خواتین کی تحریک کو منظم کیا جاسکتا ہے اور وہاں ہی یہ واضح کیا جاسکتا ہے کہ کیسے خواتین کے حقوق کی جدوجہد پدر شاہی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔