اسلامی انتہاپسندی کی شدت میں اضافہ اور محنت کش طبقہ

 

25نومبر کو حکومت نے اسلامی انتہا پسندوں کے دھرنے کو زبردستی ختم کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مظاہرین اورپولیس والے زخمی ہوئے اور7لوگ ہلاک ہوئے۔جس کے نتیجے میں پورے ملک میں مظاہرے ہو گے اور بڑے چھوٹے شہروں میں ان مظاہرین نے سڑکوں کو بلاک کردیا جس کے نتیجہ میں پورے ملک جام ہوگیا۔یہ سب مذہبی انتہا پسندوں کی بڑھتی ہوئی صورتحال کو ظاہر کررہی ہے۔یہ مظاہرے انتہائی رجعتی نوعیت کے ہیں یہ ایک ایسی آئینی ترمیم کے حوالے سے ہیں جو ختم ہوچکی ہے لیکن یہ اس غلطی پروزیر قانون سے مسعتفی ہونے کا مطالبہ کررہے ہیں اور اب یہ حکومت سے ہی مستعفی ہونے کا کہا رہے ہیں۔یہ مظاہرے پاکستان میں بڑھتے ہوئے سماجی بحران اور حکمران طبقہ کے اندار موجود تضادات اور کشمکش کا اظہار ہے۔ہر سوشلسٹ کو جہاں ان مظاہرین کے رجعتی مطالبات کو مسترد کرنے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ہم کسی طرح بھی حکومتی تشدد اور جبر کو بھی مسئلہ کا حل نہیں سمجھتے ہیں بلکہ اس مسئلہ کی وجہ ہی موجود حکومت اور ریاست کی پالیسیاں ہیں۔
حکومت نے نہ صرف مظاہرے کو زبردستی ختم کرنے کی کوشش کی بلکہ الیکٹرنک میڈیا اور سوشل میڈیا پر پابندی عائدہ کردی ۔تاکہ حکومت اور مظاہرین کی لڑائی مختلف شہروں میں نہ پھیل جائے لیکن اس سب کے باوجود حکومتی تشدد نے پورے ملک کو بند کررکے رکھ دیا اور فیض آباد کو کھولتے ہوئے پورا ملک بندہوگیا ہے۔ایک بات واضح ہے کہ اسلامی انتہاپسندی بڑھ رہی ہے اور یہ فاشسٹ ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں اور یہ خطرناک صورتحال ہے اس میں پاکستان میں اقلیتں خاص کراحمدی اقلیت کو نہایت خطرناک صورتحال ہے سامنا ہے اور یہ کمیونٹی خوف اور تشدد اور موت کے سائے میں زندگی بسر کررہی ہے۔
یہ واضح ہے کہ اگر اس طرح محنت کش،کسان ،مظلوم اقوام اپنے حق کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دیتے تو ان کے لیے کیا صورتحا ل ہوتی اور حکمران طبقہ ان پر کس طرح حملہ آور ہوتا اور اس حوالے سے سب اکھٹے ہوتے لیکن موجود صورتحال میں فوج نے واضح طور پر انتہا پسندوں کی مدد کی ہے لیکن یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے جہاں اس حکومت سے ہو سکا ہے اس نے بھی مذہبی انتہا پسندوں کو اپنے حق میں استعمال کیا۔حکمران طبقہ کے تضادات اور ٹکراو کی کیفیت میں فوج بھی موجود صورتحال کو اپنے حق میں استعمال کررہی ہے ،لحاظ موجود صورتحال (حالانکہ اس کا امکان کم ہے)فوج اپنا حل مسلط کرسکتی ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو سوشلسٹوں کو اس کے خلا ف جدوجہد منظم کرنے کی ضرورت ہے اور حقیقت میں اسلامی انتہا پسندی کے خلاف جدوجہد موجود حکومت کے خلاف جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں ہے
ہم سمجھتے ہیں کہ موجود حالات میں انتہاپسندی کے خلاف متحدہ محاذ بنایا جائے،جس میں تمام لیفٹ،ٹریڈ یونین،خواتین اور نوجوانوں کی تنظیموں کو شامل کیا جائے تاکہ مل کر اس ابھرتے ہوئی انتہاپسندی اور فاشسٹ ہتکھنڈوں کے خلاف مشترک جدوجہد تشکیل دئی جائے۔