سرمایہ دار طبقے کی ترقی اور محنت کشوں کا بڑھتا ہوا استحصال

 

 

 

پاکستان ترقی کررہا ہے یہ خوش کن خبر عالمی مالیاتی ادارے،میگزین اوراخبارات پیش کررہے ہیں۔نوازشریف اور اس کی کابینہ عالمی مالیاتی اداروں اور میڈیا کی طرف سے اس تصویر کشی کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرہے ہیں کہ یہ ان کی گڈ گورنس کا نتیجہ ہیں۔

 

پاکستان کی معیشت میں بہتری آئی ہے یہ حقیقت ہے،2016میں اس کی سٹاک مارکیٹ کو ایشیامیں بہترین قراردیا گیا تھااور اس بات کی توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ اس سال پاکستان کی معاشی شرح نمو5.2فیصد رہنے کی امید ہے۔پاکستان کی اکنامی کو برکس کے بعد ترقی کرتی ہوئی معیشتوں ویتنام،،رومانیہ اور ارجنٹیناکے ساتھ شامل کیا جارہا ہے۔نواز لیگ کے مطابق سی پیک اور یہ ترقی ملک کی تقدیر بدل دے گی اور پاکستان ایک درخش مستقبل ہے۔

 

عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق اس کی بنیادی وجہ سیکورٹی میں بہتری،سیاسی استحکام اور مڈل کلاس میں اضافہ ہے جس کی وجہ سے سرمایہ پاکستان میں منتقل ہورہا ہے۔لیکن حقیقت میں ترقی کے ان اعدادوشمار کی بنیادی وجہ وہ پالیسیاں ہیں جن سے سرمایہ کے استحصال کی راہ ہموار ہورہی ہے اور اس کے منافع میں اضافہ ہوا رہا ہے جس کی وجہ سے تعمیراتی شعبہ میں ہونے والا اضافہ،سٹاک مارکیٹ کی اچھی کارکردگی بھی اہم وجہ ہے۔

 

یہ پاکستانی معیشت کی درست تصویر نہیں ہے،اس بات میں جھوٹ نہ بھی ہو تو قومی معیشت کی ترقی کا محنت کش عوام کی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور یہ معاشی ترقی سرمایہ داروں اور مالکان کی ترقی ہوتی ہے یہ ترقی ہمواراور پائیدار نہیں ہوتی، چند سال پہلے مشرف دور حکومت کو پاکستان میں ترقی کے ایک نئے عہد کا آغاز قرار دیا جارہا تھا جب آج سٹاک مارکیت عروج پر تھی اور شرح نمو پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی8.3پر پہنچ گئی تھی۔اس وقت بھی عالمی ادارے اور میڈیا اس کو شاندار کامیابی کے طور پر پیش کررہا تھا اور سرمایہ دارانہ ترقی پر عمومی طور پر عوام اور محنت کشوں میں کسی حد تک اعتماد پایا جاتاتھا،یہ اعتماد اب بڑی حد مجروع ہوچکا ہے اس لیے محنت کش عوام کی بڑی اکثریت اس ترقی کواپنی ترقی نہیں سمجھتے۔اس لیے جب حکمران طبقہ ترقی کے راگ الاپتا ہے تو عمومی طور پرآج لوگ اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

 

پاکستان میں 50فیصد درمیانے طبقہ کا بیان صرف ایک جھوٹ ہے کہ حکمران طبقہ کے مطابق شہروں میں رہنے والی ساری آبادی ہی درمیانے طبقہ پر مبنی ہے اور یہ موبائل فون،موٹر سائیکل یا ٹی وی خریدنے والے کو مڈل کلاس قرار دے رہے ہیں،حالانکہ سرمایہ دارنہ پیدوار اگر خریدی نہیں جائے گئی تو سرمایہ کیہ گردش اور مستقبل کیا ہوگا۔مگر اس کی بنیاد پر کسی کو مڈل کلاس کہنا ایک حماقت ہے۔

 

حقیقت یہی ہے کہ آج کے عہد میں ہونے والیسرمایہ دارانہ ترقی کا محنت کش عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ سرمایہ اور مالکان کی ترقی ہے،ان کے سرمایہ،کارخانوں اور پلاٹوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور محنت کشوں کے استحصال کی شدت میں اضافہ اور اس کی مراعات پر بڑے حملے ہوئے ہیں اور یہی امراء کی ترقی ہے۔محنت کش عوام کے لیے یہ نظام مسلسل جبر اور اذیت پر مبنی ہے۔حکمران طبقہ کی ٹرِئیکل ڈاون کی پالیسیوں کے ثمرات عوام تک کبھی نہیں پہنچتے اور سرمایہ کا ارتکازہوتاہے جس سے ملک ریاض اور میاں منشاء جیسوں کا جنم ہوتا ہے اور محنت کش اور غریب عوام قومی معیشت کے نام پر سہولیات میں کٹوتیاں اور ٹیکسوں میں اضافہ دیکھتے ہیں۔اس لیے سرمایہ دارانہ ترقی کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ آج امیر اور غریب کی زندگی میں بڑے پیمانے پرمعاشی اور سماجی تفریق میں اضافہ ہورہا ہے،بے روزگاری اور غربت میں تیز تر اضافہ ہورہا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کی وجہ بنیادی طورپر بیڈ گورننس سے زیادہ سرمایہ دارنہ نظام ہے۔سرمایہ داری نظام کے خلاف جدوجہد اور سوشلسٹ انقلاب کے بغیر کسی ہموار اور یکساں ترقی کا تصوربیکار ہے۔