حکمران طبقہ کا بڑھتا ہوا بحران

14اگست کو لاہور سے شروع ہونے والے آزادی اور انقلاب مارچ کو عوام کی بڑی تعداد کی طرف سے حمایت ملی،لاکھوں لوگوں نے اس لانگ مارچ میں شرکت اختیار کی اور طویل فاصلہ طے کرکے اسلام آباد پہنچے اور پچھلے 17دنوں سے پرامن دھرنا دے رکھا۔حکومت اور احتجاجیوں کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد انقلابی اور آزادی مارچ نے وزیراعظم ہاوس کے باہر دھرنے کے لیے پیش قدمی کی تو پولیس نے مظاہرین پر بدترین تشدد شروع کردیا جس کے نتیجے میں 1000کے قریب لوگ زخمی ہوے،جبکہ 4کے قریب لوگ شہید ہوئے۔اس کے علاوہ حکومت نے صحافیوں پر بھی بدترین تشدد کیا جس کے نتیجے میں پنجاب اور کراچی میں بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے اور دھرنے سامنے آئے جس کی وجہ سے حکومت نے پنجاب میں 144نافذ کردی۔جس سے 4سے زائد لوگ ایک جگہ پر اکھٹے نہیں ہوسکتے،اس کا بنیادی مقصد ریاستی تشدد اور دہشت گردی کے خلاف عوامی احتجاج کو روکنا تھا۔لیکن اس کے باوجود پنجاب اور کراچی میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔

اس احتجاج کی ظاہری وجہ تو2013کے الیکشن میں ہونے والی دحندلی اور ماڈل ٹاﺅن میں 12سے زیادہ عوامی تحریک کے ورکرز شہید ہوے اور80کے قریب زخمی ہوئے۔لیکن اصل وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارنہ نظام کے بحران کی وجہ سے موجود حکومت بری طرح ناکام ہوگی ہے اور حکمران طبقہ کے اندرونی تضادات میں شدت آگی ہے اور اس وقت ٹکراو جاری ہے،جس کی وجہ سے مڈل کلاس اورلوئیر مدکلاس اور غریب لوگ متحرک ہوگے ہیں۔

عمران خان کے جمہوری مطالبات اور طاہر القادری کا پرو عوام پروگرام کا اصل مقصد اس نظام پر عوام کا اعتماد بحال کرنا ہے اور ان کا کرپشن کے خاتمے سے مراد ہے کہ حکمران طبقہ میں کیک برابری کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے۔لیکن اس سے عوام میں ان سے امیدیں پیدا ہوئیں ہے اور دھرنا دے رہے ہیں احتجاج اور جدوجہد کے مختلف طریقوں کو سیکھ رہے ہیں۔

لیکن اس ساری صورتحال میں لیفٹ جمہوریت کے دفاع کے نام پر سرمایہ دارنہ نظام اور نوا ز حکومت کی حمایت کررہے ہیں۔یہ نہایت ہی شرمناک صورتحال ہے،لیکن یہ لیفٹ کی اصلاح پسند نوعیت کو واضح کررہا ہے ۔

ان حالات میں ہم ریاستی دہشت گردی کی مخالفت کررہے ہیں اور جمہوری مطالبات کی حمایت کرتے ہیں۔لیکن یہ جمہوری مطالبات اورپرو عوامی مطالبات سرمایہ دارنہ نظام کی موجودگی میں ممکن نہیں ہے اور ہماری تحریک کی حمایت کا مقصد نظام کی مخالفت ہے اور مڈل کلاس اور سرمایہ دارنہ قیادت کو عوام میں بے نقاب کرنا ہے۔ یوں ہی ہم سوشلسٹ متبادل تعمیر کرسکتے ہیں اور اگر کوئی فوجی آمریت بھی آئے تو اس کی مزاحمت کی جاسکتی ہے