تحریک انصاف کی فتح اور محنت کش طبقہ

25 جولائی کو ہونے والے الیکشن میں تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں 116نشستیں لیں ہیں یہ جیت ان تمام اندازوں کے برعکس تھی جو ایک ہنگ پارلیمنٹ کی بات کررہے تھے۔لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ خود حکومت بنا سکے۔اس لیے تحریک انصاف کی حکومت اتحادی حکومت ہوگی جس میں اسے مختلف پارٹیوں کو تعاون درکار ہوگا۔مسلم نواز جو حکومتی پارٹی تھی اس نے ان الیکشن میں64نشستیں حاصل کئیں ہیں اور پی پی پی نے 43نشستیں حاصل کیں ہیں۔
مسلم لیگ نواز اور دیگر اپوزیشن پارٹیاں اس الیکشن کو مسترد کررہی ہیں اور ان کے مطابق الیکشن سے پہلے اور بعد میں اس میں بڑے پیمانے پر دھندلی ہوئی ہے۔لیکن ابتدائی احتجاجی موقف کے بعد اب انہوں نے اسمبلی میں حلف اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔یورپی یونین کے نمائندوں،فافن اور دیگر نسبتاُُ معتبر صحافیوں کے مطابق الیکشن سے پہلے جہاں تمام جماعتوں کو یکساں مواقعے نہیں ملے وہاں الیکشن کے بعد گنتی کے دوران بہت بڑے پیمانے پر نتائیج کو تبدیل کیا گیا ہے اور اس طرح یہ ایک دھندلی ذدہ الیکشن ہیں۔
صوبائی سطح پر پنجاب میں مسلم لیگ نواز سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے لیکن تحریک انصاف کی نشستیں نواز لیگ سے چند ہی کم ہیں اس لیے اس بات کا مکان ہے کہ تحریک انصاف پنجاب میں بھی حکومت بنائے گی۔جبکہ سندھ میں پی پی پی حکومت بنائے گی اور خیبر پختوان خواہ میں تحریک انصاف ایک بار پھر برسراقتدار ہو گی۔
یہ انتخابی نتائج روایتی پارٹیوں کے لیے بہت بڑا دھچکا ہیں اور ان الیکشن میں مذہبی اور قوم پرست قیادت کو بدترین شکست کا سامنا ہے۔تحریک انصاف نسبتاُُ ایک نئی جماعت ہے اور اس کا پورا بیانیہ کرپشن کے خلاف اور اچھی گورننس کا ہے اور یہ ملک کی لوٹی ہوئی ددلت واپس لانے کی بات کرتے رہے ہیں۔لیکن اس وقت تحریک انصاف کی قیادت میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو لوٹ مار میں حصہ دار رہے ہیں ان کو الیکٹ بلزکے نام پر قبول کیا گیا ہے۔
ان الیکشن کی ایک اور اہم بات تحریک لبیک جو ایک نئی فاشسٹ پارٹی ہے اس نے 2.2ملین ووٹ حاصل کئے ہیں اور سندھ اسمبلی میں دو نشستوں پر کامیاب بھی ہوئی ہے۔یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔تحریک لبیک کے علاوہ ایک ملی مسلم کے حمایت یافتہ لوگوں نے بھی اچھے خاصے ووٹ حاصل کئے ہیں اور اس پر روایتی مذہبی جماعتوں کے ووٹ علیحدہ ہیں جو پچیس لاکھ کے قریب ہیں۔
عمران خان جو تحریک انصاف کی طرف سے وزیراعظم کا امیدوار ہے۔اس نے الیکشن کے بعد اپنی تقریر میں کہا ہے کہ ہم جیت گے ہیں اور اب حکومت بنائیں گیں ۔اس میں غریبوں کے حالات زندگی بہتر کریں گیں،کرپشن کا خاتمہ،صحت اور تعلیم کی سہولیت کو بہتر بنائیں گئیں اور انسانی ترقی پر خرچ اور معیشت کو بہتر کریں گئیں۔اس کے علاوہ پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر اور ایک کڑور نوکریوں کا بھی وعدہ کیا ہے۔اس نے مدینہ کی طرز پر ریاست بنانے کا وعدہ کیا ہے لیکن ساتھ ہی چین کی معیشت اور پالیسیوں کو سراہا ہے۔
لیکن پاکستان کی معاشی حالات اس وقت بہت خراب ہیں اور اس میں ان پاپولسٹ وعدوں کو پورا کرنا کافی مشکل ہے اور اس حکومت میں وزیر خانہ کے امیدوار اسد عمر کا یہ کہنا ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے دیگر ذرائع سے قرض لینا ہوگا اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں اور بڑے پیمانے پر نجکاری کرنی ہوگی اور یہی ایک حقیقت ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ گڈ گورنس کے نام پر حقیقت میں محنت کشوں پر بڑے پیمانے پر حملے ہوں گے اور ان کو تحریک انصاف کی مقبولیت کی بنیاد پر کرنے کی کوشش کی جائے گی جمہوری حقوق پہلے ہی بڑے پیمانے پرحملے ہورہے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ اس حکومت کے حملوں کے خلاف محنت کش طبقہ اور اس کی قیادت سنجیدہ لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا۔لیکن الیکشن کے نتائج مزدورتحریک کے لیے کسی طور پر اچھے ثابت نہیں ہوئے ہیں ۔اب یہ وقت ہے کہ لیفٹ،ٹریڈ یونینز اور سماجی تنظیمیں مل کراس حملے کے خلاف متحدہ محاذ تشکیل دئیں۔لیکن اس وقت سب سے اہم سوال محنت کش طبقہ کی قیادت کا ہے یعنی محنت کش طبقہ کی پارٹی کا اس کے بغیر موجود حالات میں حکمران طبقہ کا مقابلہ بہت مشکل ہوگا۔حقیقت میں ایسی جماعت ہی پاکستان میں جمہوری حقوق اور محنت کشوں کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے اس نظام کا خاتمہ کرسکتی ہے۔