کورونا وائرس اور سرمایہ کا بجٹ

پاکستان میں بجٹ کامطلب مہنگائی،بے روزگاری اور غربت ہوتا ہے بجٹ حکمران طبقہ کی طرف سے محنت کشوں پر حملوں کا ایک پروگرام ہوتاہے۔اس لیے بجٹ سے پہلے سرمایہ داروں سے مشاورت کی جاتی ہے اورکہہ جاتا ہے کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کاروبار دوست بجٹ پیش کرنا چاہیے۔اسے میں حکومت کے لیے بھی آسان ہوجاتاہے کہ وہ سرمایہ داروں کے مفادات کا مکمل خیال رکھے۔
کورونا وبا کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے جب بجٹ پیش کرنے کا وقت آیا تو سب کو معلوم تھا کہ سرمایہ داروں کے مفاد میں بجٹ پیش ہوگا حالانکہ لاک ڈاؤن سے یہ واضح ہوگیا تھا کہ محنت کش طبقہ ہے کی وجہ سے معیشت چلتی ہے اور اگر وہ کام نہ کرے تو سماج رک جاتاہے منافع ختم ہوجاتاہے اور تیزی کے ساتھ عدم استحکام کا شکار ہوجاتے ہیں۔
 وزیراعظم عمران خان نے بجٹ سے پہلے کورونا وبا کے نام پر سرمایہ داروں کھربوں روپے کا پیکچ دیا ہے۔ جس سے ایکسپوٹرز،بڑے صنعت کار،رئیل اسٹیٹ،بلڈرز،بجلی کی کمپنیوں کے علاوہ دیگر سرمایہ داربھی مستفید ہوں گے۔تعمیراتی پیکچ کا مقصد سرمایہ داروں کے کالے دھن کو سفید کرنا ہے۔اس سب کے باوجود مالکان کہہ رہے ہیں کہ ہم کام کے بغیر مزدوروں کو تنخواہ نہیں دئے سکتے ہیں جو محنت کش کام کررہے ہیں ان کی تنخواہوں میں کٹوتیاں کی گئیں بلکہ بڑی تعداد میں ان کو نوکریوں سے نکال دیا گیا اور یہ سب وہ بڑے سرمایہ دار اور مالکان کررہے ہیں جن کو حکومت کی طرف سے ہر طرح کی ریلیف ملی ہے۔
اس صورتحال میں وفاقی وزیر حماد اظہر نے بجٹ پیش کیا۔اس وفاقی بجٹ کا حجم7136ارب روپے ہے اس میں حکومتی آمدن کا ہدف 6573 ارب روپے ہے جس میں سے 5464 ارب روپے کی ٹیکس آمدن ہے جبکہ دیگر آمدن 1100 ہے۔ کل ٹیکس میں سے 4963ارب ہے جوایف بی آرکے ذریعے اکٹھے کیئے جائیں گئیں جبکہ475 ارب روپے کی ٹیکس آمدن پیٹرولیم کی مصنوعات سے حاصل کی جائیں گئیں۔ صوبوں کووفاق سے 2874 ارب ملے گئے جس کے بعدوفاق کے پاس 3700 ارب روپے بچیں گئے لیکن صوبے بچت کریں گئیں اور242ارب کی رقم وفاق کو واپس کریں گئیں اس کے باوجود وفاق کے پاس اپنے اخرجات کی تکمیل کے لیے 3942ارب روپے ہوں گئیں۔اس کامطلب ہے کہ بجٹ خسارہ تقریبا 3200 ارب روپے ہو گا اور یہ جی ڈی پی کے 7 فیصد کے برابر بنتا ہے۔ اس بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے تقریباً 2400 ارب روپے کے نئے اندرونی قرضے اور 810 ارب روپے کے نئے بیرونی قرضے لیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ 100 ارب ریاستی اداروں کی نجکاری کے ذریعے حاصل ہوں گئے۔
یہ ساری تصویر تو وہ ہے جو حکومت نے بجٹ میں پیش کی ہے اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ تمام تر عالمی معاشی بحران کے باجود پاکستان جس کی اس وقت معاشی گروتھ 0.4ہے وہ ایک معاشی معجزے سے2.1فیصد ہوجائے گی لیکن یہ ایک مذاق تھا اور سب کو پتہ تھا کہ اس مالی سال یہ نہیں ہوسکتا بلکہ اس بات کے امکانات ہیں کہ معاشی گروتھ منفی2فیصد تک جاسکتی ہے۔
ہر بجٹ کی طرح اس بجٹ کا بڑا حصہ بھی دو مدوں میں خرچ ہوگا ایک 2950ارب اندرونی اور بیرونی قرضہ جات کی مد میں اور دوسرا دفاعی بجٹ جو اس دفعہ1290ارب ہے جبکہ پچھلے سال نسبت اس میں 140ارب روپے زیادہ ہے لیکن حقیقت میں فوجی بجٹ اس سے کہیں زیادہ ہے البتہ اسے مختلف مدوں میں تقسیم کردیا جاتاہے تاکہ اس کا حجم کم نظر آئے لیکن حقیقت میں فوجی بجٹ2100ارب ہے۔
اس سال 650ارب کا ترقیاتی بجٹ رکھا گیا ہے جو پچھلے سال سے کم ہے اور اس کے زریعے بھی ریاستی افسرشاہی اور ٹھیکیداروں کو نواز جاتاہے اور ایسے منصوبوں پر خرچ کیا جاتا ہے جس سے سرمایہ دارون کو  فائدہ حاصل ہولیکن اس سے روزگار پیدا ہوتا ہے توا ن حالات میں اس میں بڑے اضافہ لازمی تھا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
صحت کا بجٹ کورونا وبا کے باوجود40ارب روپے رکھا گیا ہے جب اس وبا کی وجہ سے ہیلتھ نظام کی کمر توڑ دی ہے اوراس رقم کا مطلب ہے حکومت نے محنت کشوں اور غریبوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ تعلیم کا بجٹ117ارب ہے جو بہت ہی کم ہے۔ اس میں پچھلے سال جو کٹوتی کی گئی تھی اس کو برقرار رکھا گیا ہے۔ہائر ایجوکیشن کمیشن نے حکومت سے جو رقم مانگی تھی وہ بھی حکومت نہیں دے رہی جس کی وجہ سے یونیورسٹیاں پہلے ہی فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کرچکی ہیں جس میں مزید اضافہ ہوگا۔اس کا مطلب ہے محنت کش طبقہ کے بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے مواقع کم سے کم ہوتے جائیں گئیں۔
عالمی معاشی بحران کی وجہ سے اس بات کے کوئی امکانات نہیں ہیں کہ حکومت کے اس سرمایہ دوست بجٹ کے باوجود معیشت میں کوئی بہتری آئے بلکہ اس میں مزید ابتری لے کر آئے گا اور حکمران طبقہ کے پاس اس کا ایک ہی حل ہے کہ قومی معیشت کے نام پر اس کا بوجھ محنت کش طبقہ پر ڈالا دیا جائے اور سٹیل مل کے محنت کشوں کی نوکریوں کا خاتمہ،ریلوے سے چھانٹیاں اسی کا حصہ ہے اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر نجکاری کا منصوبہ ہے۔یہ ایک بڑا حملہ ہے اس کا مقابلہ محنت کش طبقہ مل کر جدوجہد کے زریعے ہی کرسکتا ہے