پاکستان میں جمہوری حقوق کی تحریکیں


پاکستان میں دوماہ میں نئے الیکشن ہورہے ہیں اور اس بات کے امکانات کافی ہیں کہ حکمران جماعت کو الیکشن میں شکست ہوگی اور نئی حکومت مختلف پارٹیوں کے اتحاد پر مبنی ہوگی جس کی وجہ سے ریاست کے غیرمنتخب اداروں کی بالادست پوزیشن برقرار رہے گی لیکن اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ الیکشن ملتوی ہوجائیں۔بہرحال ایک بات واضح ہے کہ حکمران طبقہ کے تضادات شدید تر ہیں اور اس وقت پاکستان میں حکمرانی کرنا آسان نہیں ہے۔معاشی حالات میں پچھلے پانچ سالوں میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی البتہ پہلے سے موجود قرضوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے اور تجارتی خسارہ حدسے زیادہ تجاوز کرگیا ہے اور ان حالات میں قرضہ ہی حکمرانوں کے پاس واحد آپشن ہے جس کے ذریعے وہ معیشت کی سانس کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ 
پاکستان میں اس وقت ہر طرف جمہوری حقوق کی تحریکیں جنم لے رہی ہیں اور ان کو وسیع تر عوامی حمایت مل رہی ہے۔ا سکا اغاز پچھلے سال کے آخر میں پشتون نوجوان کے کراچی میں قتل کے بعد ہوا اس وقت اس تحریک کی بنیادیں پورے پشتون سماج میں موجود ہیں اور اس کے نعرے حقیقت میں دہشت گردی مخالف جنگ کے نتیجے میں جنم لینے والی بربریت کے خلاف ہیں حالانکہ حکومت نے بہت کوشش کی کہ مختلف طریقوں سے تحریک کو ختم کریں لیکن یہ ممکن نہیں ہوسکا اور اب یہ تحریک پشتون سماج میں ایک حقیقت بن پر سمانے آئی ہے اور پشتون تحفظ موومنٹ کو وسیع تر عوامی حمایت مل رہی ہے اور اس تحریک کی قیادت حکومت اور ریاست سے مشکل سوالات کررہی ہے ان حالات میں ریاست پیچھے بھی ہٹتی ہے کیونکہ اس کا ہر وار تحریک کو پیچھے دھکیلتا رہا ہے اور اس وقت جرگہ اور مذاکرات کا مطلب ہے کہ ریاست پیچھے ہٹنے پر مجبور ہے۔
جیسے گمشدہ افراد کا مسئلہ پشتون موومنٹ کا سب سے اہم ایشواء ہے اسی طرح مسئلہ کا بلوچ اور سندھی قوم کو بھی سامنا ہے اور بلوچ پچھلے کافی عرصے سے اس پر متحرک ہیں اور پشتون تحفظ موومنٹ نے اس ایشواء کو ایک نئی زندگی دی ہے اس طرح سندھ میں بھی صورتحال دن بادن خراب ہوتی جارہی ہے اور وہاں گمشدگی اور مسخ شدہ لاشوں میں اضاٖفہ ہورہا ہے اور اس کے خلاف احتجاجات ہوتے رہے ہیں لیکن کراچی میں گمشدہ افراد کی رہائی کے قائم کیمپ پر پولیس کے حملہ کے بعد سے اس حوالے سے احتجاجات اور بھوک ہڑتال میں اضافہ ہو ا ہے اور سندھ میں ایک نئی قومی تحریک ابھر رہی ہے۔
گلگت بلتستان میں حکومتی آرڈینس کے بعد ایک بڑی تحریک نے جنم لیا ہے یہ تحریک بھی جمہوری مطالبات اور سیلف حکومت کے حوالے سے ہے اور سماج میں وسیع تر حمایت مل رہی ہے۔یہ ساری صورتحال واضح طور پر ایک بدلتے ہوئے حالات کو ظاہر کررہے ہیں اور جہاں اس بات کا واضح امکان ہے کہ اگلے عرصہ میں یہ ایک وسیع تر ملک گیر تحریک بن جائے۔ان حالات میں انقلابی قوتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان تحریکیوں میں شریک ہو کر اس نظام کے مختلف پہلوں کے خلاف جدوجہد کو سرمایہ کے نظام کے خلاف جدوجہد میں بدل دئے۔