سرمایہ دار طبقہ کی جیت اور محنت کش عوام


تحریک انصاف کی حکومت کو قائم ہوئے ایک ماہ ہو چکا ہے یہ حکومت کا آغاز ہے اس حکومت کا قیام ایک ایسے دور میں ہوا ہے جہاں حکمران طبقہ کے تضادات اور لڑائی عروج پر ہے اورمعیشت شدید بحران کا شکار ہے سرمایہ طبقہ سمجھتا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت اور کرپشن کے خلاف نعرہ بازی کے تحت وہ اپنی مرضی کے تحت نیولبرل پالیسیوں پر عمل درآمد ہوگا اور جن پالیسیوں پر نواز حکومت ناکام ہوگئی تھی اب تحریک انصاف سرمایہ داروں کے ایجنڈے کو پورا کرئے گی۔تحریک انصاف کے اقتدارسادگی اور اخرجات میں کٹوتیوں کے بڑے بڑیدعوی کئے جائے رہے اور روز نئی سادگی کا اظہار ہوتا جیسے کہ وزیراعظم ہاوس کی بھینسیں بھی گاڑیوں کی طرح بیچ دی گئیں۔ریسٹ ہاوسس و دیگر عمارتوں کو فروخت یا ان کو یونیورسٹیوں اور ہوٹلوں میں تبدیل کردیا جائے گا۔یہ درست ہے کہ حکمران طبقہ کی عایشیوں پر بے تحاشہ خرچ ہوتا ہے اور اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔مگر اس وقت اس سادگی کا مقصد محنت کشوں پر کٹویتوں کا غذاب نازل ہوگا۔
تحریک انصاف کی حکومت نے ایک کروڑ نوکریوں اور 50لاکھ نئے گھروں کاتعمیر کا وعدہ کیاہے لیکن پاکستان کی معیشت شدید بحران میں ہے اور زر مبادلہ کے ذخائر صرف ایک ماہ کی درآمدات کے رہ گئے ہیں اگر فوری طور پر قرضے نہ ملے توبنیادی ضروریات زندگی کی درآمدات بند ہوسکتی ہیں جس سے بحران شدید ہوسکتاہے اور بڑے پیمانے پر قرضوں کی ادائیگی کا مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے ڈالر کی قیمت میں ایک بارپھر اوپر جاسکتی ہے اور اس بات کے امکانات ہیں کہ یہ155تک پہنچ سکتا ہے یہ محنت کش عوام کی زندگی مزید عذاب کردے دے گااور پیٹی بورژواء طبقہ بھی اس سے بری طرح متاثر ہوگا۔اس وقت اصل سوال یہی ہے کہ معیشت کو سرمایہ دار طبقہ کے لیے بہتر بنایا جائے اور سرمایہ داروں کا منافع اور لوٹ مار برقرار رہے۔اور حکومت کے پاس واحد قابل عمل حل قرضہ ہے یعنی آئی ایم ایف سے قرضے کا مطلب مزید سخت شرائط ہیں۔ان شرائط کا مطلب ویسے تو یہ بتایا جاتا ہے کہ اس سے معیشت میں بہتری آئے اور عوام کے حالات زندگی بہتر ہوں گے لیکن اس سے سرمایہ دار طبقہ کے سرمایہ اور دولت میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ غریب اور محنت کش اس کی قیمت ادا کرتے ہیں اور ایسے ہی بحران کے عہد میں ہوتا ہے حالانکہ کہ حکمران طبقہ کی پالیسیوں اور لالچ کی وجہ سے بحران جنم لیتا ہے۔
عمران خان کی سادگی کے مظاہرے جو ہیلی کپٹر کے استعمال سے سامنے آرہے ہیں اس کے ساتھ سرکاری اراضی کو فروخت کیا جارہا ہے جس سے سرمایہ داروں کے لیے چاندی ہوجائے گی اس کے ساتھ ترقیاتی بجٹ میں400ارب کی کٹوتی اورفنانس ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے 125ارب کے نئے ٹیکس لگائے جارہے ہیں،اس کے کے علاوہ درآمد اشیاء پر بھی مزید ٹیکس لگائے جارہے ہیں۔بجلی کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ گیس کی قیمت میں اضافہ بھی متوقع ہے جو فی الاوقت حکومت ٹیکنیل بنیادوں پر نہیں کرپارہی(حالانکہ پہلے حکومت نے اس کا اعلان کردیا تھا۔ ٹول ٹیکس 10 فیصد بڑھا دیا گیا ہے، کھاد کی قیمتوں میں 200 سے 800 روپے تک کا اضافہ ہے، ایل پی جی فی کلو 70 روپے مہنگی کر دی گئی ہے، شناختی کارڈ فیس میں بھی ایک ہزار روپے اضافے کی خبرہے اور اس کے ساتھ انکم ٹیکس12لاکھ سالانہ آمدن سے کم کرکے8لاکھکیا جارہا ہے۔ یہ سب مہنگائی میں شدید اضافہ کردئے گا،اس کی تفصیلات آئی ایم ایف کو دی گئی ہیں اس کا مقصد قرضے کا حصول ہے۔دو سو اداروں کی نجکاری کا اعلان تو اسد عمر نے تحریک انصاف کی حکومت کے قائم ہونے سے پہلے ہی کر دیا تھا۔ یوٹیلیٹی سٹورز کا منصوبہ بھی بند کیا جا رہا ہے جس سے نہ صرف غریب صارفین متاثر ہوں گے بلکہ ہزاروں افراد بیروزگار ہو جائیں گے۔ محکمہ صحت اور دیگر اداروں کے ہزاروں ڈیلی ویجز ملازمین کو فارغ کیا جا رہا ہے۔یہ تمام اقدامات محنت کش پر بڑے حملے کا اعلان ہے اور سرمایہ دار طبقہ،معیشت دان اور میڈیا میں یہی کہ رہا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں سخت فیصلوں کی ضرورت ہے جتنا جلدی ہو ان پر عمل درآمد کرلیا جائے کیونکہ اس وقت عوام حکومت پر اعتماد کررہے ہیں اور وہ مشکل برداشت کرلیں گئیں اگر یہ وقت گزار گیا تو پھر ان پر عمل درآمد مشکل ہوجائے گااور کوئی متبادل نہیں ہے۔
حکمران طبقہ کے حالات اور پالیسیاں ظاہر کررہی ہے کہ موجودحکو مت نواز شریف کی حکومت کی نسبت زیادہ سخت گیر پالیسیوں پر عمل پیرہوگی اور محنت کش طبقہ کے لیے ایک سخت دور کا آغاز ہوگیاہے۔یہ بھی درست ہے کہ محنت کش عوام اسے آسانی سے قبول نہیں کریں گئیں۔ان حالات میں یہ واضح ہے کہ ٹریڈ یونیوں اور لیفٹ کا ایک متحدہ محاذ تشکیل دیا جائے جو حکمران طبقہ کے حملوں کی مزاحمت کے لیے محنت کش طبقہ کی مشترکہ حکمت عملی تشکیل دیں اور واضح کریں کہ موجود بحران کا واحد حل سرمایہ دار ی نظام کے خاتمے اور سوشلسٹ انقلاب میں ہے۔