دہشت مخالف جنگ نامنظور

طالبان سے مذاکرات اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کا سوال ،اس وقت شدت کے ساتھ میڈیا میں سامنے آرہا ہے۔ہر طرف یہی پکار ہے کہ یہ ہماری جنگ ہے ۔اس میں ہمارے لوگ مارے جارہے ہیں۔اگر طالبان کی دہشت گردی جاری رہی تو مذاکرت کیسے ممکن ہوسکتے ہیں اور کیا طالبان سے امن ممکن ہے یہ تو موت اورتباہی کے پیغامبر ہیں۔جو اب تک ہزاروں بے گناہ انسانوں کے قتلِ عام میں ملوث ہیں۔

یہ سب وہی زبان ہے جو دہشت مخالف جنگ کا جوازہے۔جس سے ریاست کے ایک حصے نے پچھلے عرصے میں چشم پوشی کر رکھی تھی اور مذاکرات کا واویلہ کیا جارہا تھا۔لیکن اس کے ساتھ آپریشن بھی جاری تھا۔لیکن اب امریکہ کی طرف1.6ملین کی امداد اور وزیراعظم نوازشریف کا دورہ امریکہ اس بات کا واضح اظہار تھا کہ طالبان سے مذاکرات کے بیانات اصل میں ریاستی آپریشن کے خاتمے کی بجائے اس کو جاری رکھنے کا ایک طریقہ ہے۔یہ ظاہر کررہا ہے کہ امریکہ اوریاست کے درمیان جنم لینے والے’’ تضادات‘‘سمجھوتے میں بدل رہے ہیں۔میر علی پر ہونے والی بمباری طرف اشارہ کررہی ہے۔

جہاں ایک فوجی چوکی پر ہونے والے حملے،جس میں پانچ فوجیوں کی ہلاکت ہوئی اور ان کی میتوں لیجانے والے قافلہ پر ہونے والے حملے میں تین فوجی زخمی ہوگے تھے۔اس کے بعد میر علی پر طالبان کے نام پر ہونے والے آپریشن میں 80لوگ مارے گے اور بے شمار زخمی ہوئے۔لیکن علاقے میں کرفیو کی وجہ سے لوگ مردوں اور زخمیوں کو اٹھا بھی نہ سکے۔مارے جانے والے افراد کے جنازوں کے وقت حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی ہوئی،اس صورتحال کی علاقے کے ایم این اے نذیر خان نے بھی تصدیق کی کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر بے گناہ اورعام شہری تھے۔

اس آپریشن نے عام آبادی میں حکومت کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ کیا ہے۔طالبان کے نام پر عام لوگ مر رہے ہیں ۔ہر جنگ کی طرح دہشت مخالف جنگ میں بھی یہی ہورہا ہے۔

کراچی میں چوہدری اسلم کی بم دھماکے میں ہلاکت اور ہنگو میں طالب علم اعتزاز کی خودکش حملہ آور کے خلاف بہادری کو حکمران طبقہ جنگ کے طبل کے طور پر بجا رہا ہے کہ جنگ سرمایہ داری میں ایک مافع بخش کاروبار ہے۔جس کا ان کو طویل اندازہ ہے۔لیکن اس جنگ نے ایسے حالات کو بھی جنم دے دیا ہے جس میں اب سب کچھ ریاست کے ہاتھ میں بھی نہیں ہے۔

اعتزاز تو خیر حکمران طبقہ کی ناکامی اور سوال کو سامنے لارہا ہے کہ عام آدمی طاقتور ہے اور اگر وہ کھڑا ہو جائے تو خودکش حملے کے ہدف کو ناکام بھی بنا سکتا ہے۔یعنی ریاست کے بغیر بھی دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور اس کو شکست دی جاسکتی۔یعنی یہ ریاست کے وحشیانہ آپریشن پر سوال اٹھاتا ہے اور یہ ظاہر کرتا کہ عوام کی متحرک قوت ہر قسم کے جبر اوراستحصال کا خاتمہ کرسکتی ہے۔یہ صورتحال نیولبرل ریاست کے لیے بہت خطرناک ہے۔جس کی نجکاری ،سبسڈی میں خاتمے اور ترقیاتی منصوبجات میں رقم کی کٹوتیوں اور ٹیکس میں اضافہ نے مہنگائی ،بے روزگاری،غربت اور محرومی میں بے تحاشہ اضافہ کیا ہے ۔ایسے میں اعتزاز طالبان سے زیادہ خود اس ریاست کے لیے خطر بن جاتا ہے۔جو پہلے ہی طالبان کی طرح کے مزید گرپوں کو جنم نہ دئیں ۔جو فیصلہ اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔لیکن یہ سب ہر صورت میں رجعتی ہونے کی بجائے۔ایک نئی پیش رفت بھی بن سکتا ہے اور یہ حکمران طبقہ کے لیے ایک بُرے سپنے کی طرح ہے

ملالہ جوائیہ کے بقول امریکہ کی افغانستان میں آمد سے ہماری طالبان کے خلاف جدوجہد مشکل ہوگی ہے اور طالبان آزادی کے متوالے بن کر سامنے آرہے ہیں۔

جبکہ چوہدری اسلم کا کردار تو کسی سے ڈھکہ چھپ نہیں،اس کو میڈیا اور حکمران طبقہ کا ہر حصہ ہیرو کے طور پر پیش کر رہا ہے۔جبکہ کراچی والے جانتے ہیں کہ یہ کن کا ہیرو تھا اور ماروئے عدالت ہلاکتوں اور نجی ٹارچرسیل کا بادشاہ تھا۔اس شہر میں یہ ریاست اور حکمران طبقہ کے مخالفین اور ان کے ساتھ تضاد میں آنے والوں کا خاتمہ کردیتا۔اس وجہ سے اس کی طاقت اور اختیار میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا۔اوراسی طاقت اور اختیارنے جنگ کے کالم نگار حسن مجتبی کے بقول ارب پتی پولیس افسران کو جنم دیا۔

یہ سب کچھ ریاست سے پوشید نہیں ہے۔لیکن یہاں اسلم چوہدری اور اعتزاز،حکمران طبقہ کی جنگ کے لیے ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر سامنے آئیں ہیں۔اسی لیے ان کو گاڈر آف آنر سے لے کر پھولوں کی چادر پیش کی جارہی ہے۔

لیکن خیبر پختونخواہ اور فاٹا میں آپریشنز کا تجربہ یہ واضح کرتا ہے کہ آپریشن کسی حل کی بجائے ،عوام کے لیے بیدخلی،موت اور ذلت کے سواء کچھ نہیں لاتا۔پھر چاہیے طالبان شکست کھا جائیں اور اچھے ہونے کی بنیاد پر کچھ بچ بھی جائیں۔لیکن عام لوگوں کی زندگی میں ذلت،بے بسی،خوف،مجبوری اور مسخ شدہ لاشوں کے سواء کچھ نہیں ہوتا۔

اس لیے اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ لیفٹ جنگ مخالف تحریک تعمیر کرئے۔جو خطے سے امریکی سامراج کی مکمل واپسی،ڈروان حملے اور جنگ کے خاتمے کو بنیاد بنائے۔یوں ہی یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ سامراج اور ریاست مخالف تحریک تعمیر کرتے ہوئے لیفٹ طالبان کا مقابلے میں متبادل لیڈر شپ پیش کرسکے۔