آئی ایم ایف کا معاہدے۔۔۔۔۔۔۔محنت کشوں پر بڑے حملے کی تیاری


آئی ایم ایف پاکستان کو اگلے انتالیس ماہ میں چھ ارب ڈالرکاقرضہ دے گااوراس 6ارب ڈالر کے ساتھ ورلڈ بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک سے بھی تین ارب ڈالر کا قرضہ کم شرح سود پر ملنے کی امیدبھی ہے۔یہ معاہدہ آئی ایم ایف کے ہی تجویز کردہ نئے مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے طے کیا ہے جو حقیقت میں وزیر خزانہ ہیں اس معاہدے کی منظوری ابھی آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے دینی ہے جس کے بعد ہی قرضہ اور شرائط کی اصل صورتحال واضح ہوں گئیں۔لیکن اس کے لیے تمام شرائط پر عمل درآمد کی ضرورت ہے جو آئی ایم ایف نے تجویز کیں ہیں یعنی یہ معاہدے کی تکمیل کے لیے بہت سارے خطرات پوشیدہ ہیں۔
یہ معاہدہ کئی ماہ کے طویل مذاکرات کے بعد ممکن ہوسکا ہے۔مذاکرات کے آخری مراحل میں وزارت خزانہ کے اعلیٰ احکام کوشریک نہیں کیا گیا اس کا مطلب آئی ایم ایف کے تمام مطالبات کی منظوری اورحقیقت یہ ایک ملک کو فروخت کردیا گیا ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق دو سال کے عرصے میں پاکستان کو 27 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے واپس کرنے ہیں۔یہ اِس عرصے کے دوران خطے میں سب سے زیادہ ادائیگی ہوگی۔یہ صورتحال ایک بڑی تباہی کو ظاہر کررہی ہے۔
حکمران طبقہ کی سادگی کا مطلب حقیقت میں محنت کشوں بڑاحملہ ہوتا ہے اور زیراعظم عمران خان عوام سے مشکل حالات کا سامنا کرنے اور قربانی کا مطالبہ کررہے ہیں اور اس کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ بائیس کروڑ عوام کا بوجھ ایک فیصد نے اُٹھایا ہوا ہے یہ جھوٹ کا پلندہ ہے۔اس کا مقصدمحنت کش عوام اور مڈل کلاس پر ایک بڑا حملہ کرنا ہے۔
آئی ایم ایف معاہدے کی جو شرائط سامنے آئیں ہیں یہ نہایت ہوشربا ہیں۔
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 20فیصد کمی کامطالبہ ہے جس سے ڈالر کی قیمت 170تک بڑھنے کا امکان ہے۔
روپے کی قدر کا تعین مارکیٹ کرے گی۔ اِس حوالے سے سٹیٹ بینک مداخلت نہیں کرے گا۔
شرح سودجو پہلے ہی 10.75 فیصدہو گئی ہے،اس میں مزید اضافہ کیا جائے گا جس سے یہ شرح 14فیصد تک جاسکتی ہے۔
مجموعی طور پہ آنے والے بجٹ میں 750 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جارہے ہیں۔
نیپرااور اوگرا کو خود مختیاربنایا جائے گا تاکہ حکومت کو بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافے کی ذمہ دار نہیں ہو۔
گیس اور بجلی کو مزید مہنگا کیا جائے تاکہ اس کے خسارے پر قابو پایا جاسکے اور نجی کمپنیوں کو بڑے پیمانے پر ادائیگیاں کی جاسکیں۔ جس سے اگلے تین سالوں میں صارفین پر 340 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔
پٹرول بھی مزید مہنگا ہوگا اور عوام جو پہلے ہی ایک لیٹر پر 40روپے ٹیکس ادا کررہے ہیں ان کی جیب پر مزیڈ بوجھ ڈالا جائے گا۔
 سٹرکچرل اصلاحات یعنی نوکریوں کا خاتمہ اور نجکاری وغیرہ۔ اس وقت بڑے پیمانے پر نجکاری کا پروگرام ہے جس میں تمام ریاستی ملکیت میں موجود اداروں  جیسے ہسپتالوں وغیرہ کی نجکاری بھی شامل ہے۔
حکومت نے آئی ایم ایف سے طے کیا ہے کہ بجٹ کا خسارہ کم کرکے جی ڈی پی کے0.6 فیصد تک لانا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ترقیاتی بجٹ، صحت و تعلیم کے بجٹ اور سبسڈیز میں مزید کٹوتیاں کی جائیں گی۔
آئی ایم ایف کے پچھلے تمام بیل آوٹ پیکچ اور اس کا نیولبرل حل ناکام ثابت ہوئے ہیں اور موجود معائدے سے بھی کچھ بہتر نہیں ہونے والالیکن اس سے مہنگائی،بے روزگاری اور غربت میں شدید اضافہ ہوگا یعنی حکومت اور آئی ایم ایف ملکر محنت کشوں پر حملہ کررہی ہے تاکہ سرمایہ داروں کا منافع بڑھ سکے اور یوں ہی ان کی طرف سے معیشت پر اعتماد بڑھتا ہے۔اس لیے تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی کی جارہی ہے جبکہ ہسپتالوں کی نجکاری ہورہی  ہے اور ترقیاتی بجٹ کم کیا جارہا ہے اس محنت کشوں اور غریب عوام کے لیے جینا اجیرن ہوجائے گا۔آئی ایم ایف کے اقدامات سے معیشت کی شرح نمو 2.5 فیصد تک گر جانے کا امکان ہے۔ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق ابھی تک معیشت میں سست روی کی وجہ سے8سے10لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے ہیں اور چالیس لاکھ لوگ غربت کی سطح سے نیچے چلے گئے ہیں جبکہ اگلے دو مالیاتی سالوں میں اس بات کا خطرہ ہے کہ 80لاکھ لوگ مزید غربت کی سطح سے نیچے چلے جائیں۔افراط زر میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اس وقت یہ 10فیصد کے قریب ہے۔آئی ایم ایف کی پالیسیاں اس میں مزید اضافہ کا باعث بنیں گئیں۔
 تما م بورژواء اپوزیشن اپنے مفادات کی جنگ لڑرہی ہے اور وہ اس مشکل سے فائدہ اُٹھا کر سمجھوتہ کرنا چاہتے ہیں وہ حکمران طبقہ کا ہی ایک حصہ ہیں اور ان کا مفاد عمران حکومت سے جدا نہیں ہے ان کی اپنی حکومتوں میں بھی ایسی ہی پالیسیاں رہیں ان حالات صرف محنت کش،شہری ودیہی غریب،کسان اور مظلوم اقوام مل کر ہی اس جابر ریاست کے خلاف لڑسکتے ہیں۔ینگ ڈاکٹرز،پیرا میڈیکس اور نرسز کی نجکاری کے خلاف جفاکش جدوجہد کررہے ہیں جبکہ یوٹیلیٹی سٹور کے محنت کشوں نے حکمران طبقہ کو پیچھے ہٹنے پر مجبورکیا ہے۔ انقلابی پارٹی کی قیادت میں محنت کش طبقہ کا اتحاد ہی آئی ایم ایف کے پروگرام کا مقابلہ اور عمران خان حکومت کا خاتمے کرسکتا ہے۔لیکن اس جدوجہد کو سرمایہ داری کے خلاف اور سوشلزم کی جدوجہد میں بدلنا ہوگا