بھٹہ مزدور جوڑے کا قتل انسانیت کے خلاف جرم ہے

Report from the Revolutionary Workers Organization (RCIT Section in Pakistan) about protests against the killing of two brick kiln workers (husband and wife) who were killed by a reactionary mob for alleged blasphemy. Before they were locked inside a factory by the capitalist to prevent them from fleeing their debts.

 

کوٹ رادھا کشن میں مسیح محنت کش شوہر اور بیوی کو جلادیا گیا،شمع اور شہزاد بارہ سال سے محمد یوسف گجرکے بھٹہ پرمزدوری کرتے تھے اور مالک کے بقول انہوں نے کام کرنے کے لیے پیشگی 250000لے رکھے تھے۔جب شوہر اور بیوی نے مالک سے اس حوالے سے حساب مانگا تو اس نے حساب کی بجائے،ان دونوں پر شدید تشدد کیا اور ان کو بھٹہ پر ہی ایک کمرے میں بند کردیا۔یہ بھٹہ پر ایک عام سی بات ہے مالکان اس طرح پیشگی دے کر محنت کشوں کو غلام بنالیتے ہیں اور ان کی ساری زندگی ان کی غلامی میں گزر جاتی ہے،بلکہ اکثر تو ان کو دوسرے بھٹہ مالکان کو فروخت بھی کردیا جاتا ہے،ویسے بھی یہ قرض نسل در نسل بھی منتقل ہوجاتا ہے۔شمع جو پانچ ماہ سے حاملہ تھی نے بند کمرے سے اپنے باپ کو فون کیا کہ مالکان اس پر اس کے شوہر پر بے تحاشہ تشدد کررہے ہیں اور یہ ان کو مار دیں گئیں۔یہ اس کا آخری فون تھا۔

ایک ردی خریدنے والے نے مقامی مولوی کو بتایا کہ اس نے ان کے گھر سے ردی خریدی تھی جس میں سے مقدس اوراق جلے ہوئے ملے ہیں۔یہ ایک من گھرٹ کہانی تھی جس دیہاتیوں کو تشدد پر اکسانے کے لیے پھیلایا گیا۔

اس کے بعدایک آگ تھی جو ان مسیح بھٹہ مزدوروں کو جلاگئی،جس مین شوہر اور بیوی کے علاوہ ماں کے پیٹ میں پانچ ماہ کا بچہ بھی تھا۔اس واقعہ نے پورے ملک میں نفرت اور غصہ کی لہر کو پھیلادیا اور ہر شہر میں اس کے خلاف مظاہر ے اور ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔خاص طور پر ٹریڈ یونینز،لیفٹ،اور سوشل موومنٹس اس میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔

بھٹہ مزدورں کی مختلف تنظیموں نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی اور اس کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا،جبکہ پاکستان بھٹہ مزدور یونین نے تین روز ہڑتال کا اعلان کیا ہے،انہوں نے کہا کہ ہم تمام مسلمان اوع مسیح محنت کشوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ظلم کے خلاف تین روز تک کام پر نہ جائیں انہوں نے کہا یہ مزدور تحریک کے لیے ایک افسوس ناک لمحہ ہے۔ہم اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس سوگ اور پرامن ہڑتال کے خلاف کوئی اقدام نہ اٹھائیں۔

پاکستان میں اس وقت مذہبی تشدد عروج پر ہے اور حکمران طبقہ کے تمام تر ٹسوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ وہ نسل پرستی اور مذہبی تقسیم میںاضافہ چاہتے ہیں،تاکہ ان کے نظام کے خلاف جدوجہد کی بجائے محنت کش آپس میں تقسیم رہیں۔پھر چاہیے یہ اہل تشیع کا قتل ہو،یا ہندوں لڑکیوں کی جبری مذہب کی تبدیلی،یہ سب اس نظام کا جبر ہے جس کو مسلط کرکے حکمران طبقہ اپنے نظام کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔

ہم یہ سمجھتے کہ ریاست کو مذہب سے علیحدہ ہونا چاہیے اور یہ مزدور تحریک کی جدوجہد کا اہم جزو ہے۔